ایام ایذا گریزی میں جو بھی ہوا، میں نے ہونے دیا، میں نے غزلیں کہیں
لوگ چیخا کئے، وہ جو معبود ہے، بس اسی کی ثناء، بس اسی کی ثناء
میری شہ رگ سے میرے خدا نے کہا، مجھ کو اپنی سنا، میں نے غزلیں کہیں
حبسِ بیجا میں تھی شہر کی جب ہوا، آپ جیتے رہے، آپ کا حوصلہ
میں اصولوں وغیرہ کا مارا ہوا، مجھ کو مرنا پڑا، میں نے غزلیں کہیں
کوئی دُکھ بھی نہ ہو، کوئی سُکھ بھی نہ ہو، اور تم بھی نہ ہو، اور مصرعہ کہیں
ایسا ممکن نہیں، ایسا ہوتا نہیں، لیکن ایسا ہوا، میں نے غزلیں کہیں
عشق دوہی ملے، میں نے دونوں کیے، اک حقیقی کیا، اک مجازی کیا
میں مسلمان بھی، اور سلمان بھی، میں نے کلمہ پڑھا، میں نے غزلیں کہیں
احمد سلمان