فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کرو یہ جی کی بِپتا جی سے جوڑ سُنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اِتنی ، آدھی ہم نے سُنائی ہو
فرض کرو تمہیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمہارے سچ مُچ کے میخانے ہوں
فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا ، جھوٹی پریت ہماری ہو
فرض کرو اِس پریت کے روگ میں سانس بھی ہم پر بھاری ہو
فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت ، باقی سب کچھ مایا ہو
دیکھ میری جاں کہہ گئے باہو ، کون دِلاں دیاں جانے ہُو
بستی بستی ، صحرا صحرا ، لاکھوں کریں دیوانے ہُو
جوگی بھی جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے ، بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں
شاعر بھی جو میٹھی بولی بول کے دِل کو ہَرتے ہیں
بنجارے جو اُنچے داموں جی کا سودا کرتے ہیں
ان میں سچے موتی بھی ہیں ان میں کنکر پتھر بھی
ان میں اَتھلے پانی بھی ہیں ، ان میں گہرے ساگر بھی
گوری دیکھ کے آگے بڑھنا ، سب کا سچا جھوٹا ، ہُو
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گھڑا تھا جِس کا کچا ، ہُو
ابنِ انشا