مرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زُباں پر کئ سوال مگر
مرے لئے کوئی شایانِ التماس نہیں
ترے جلو میں بھی دِل کانپ کانپ اُٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
کبھی کبھی جو ترے قُرب میں گزارے تھے
اب اُن دِنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دِیدہ و دِل
سحر کی آس تو ہے ، زندگی کی آس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تیری آرزو نہ مِٹ جائے
بہت دِنوں سے طبعیت مری اُداس نہیں