تم نے مجھ کو لکھا ہے
میرے خط جلا دیجئے
مجھ کو فکر رہتی ہے
آپ انھیں گنوا دیجئے
آپ کا کوئی ساتھی
دیکھ لے تو کیا ہوگا
دیکھئے میں کہتی ہوں
یہ بہت بُرا ہوگا
میں بھی کچھ کہوں تم سے
فاریحہ نگارینہ؟
اے بنازکی مِینا
عطرِ بے نسینہ
رشکِ سر بہ سینہ
میں تمہارے ہر خط کو
لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا؟
جو بھی سطر ہے اِن کی
کہکشاں ہے رشتوں کی
کہکشاں گنوا دوں کیا؟
ہے سوادِ بینائی انکا جو بھی نکتہ ہے
میں اُسے گنوا دوں کیا؟
جو بھی حرف ہے ان کا
نقشِ جاں ہے جاناناں
نقشِ جاں مٹا دوں کیا؟
لوحِ دل جلا دوں کیا؟
کہکشاں لٹا دوں کیا؟
نقشِ جاں مٹا دوں کیا؟
مجھ کو لکھ کے خط جانم
اپنے دھیان میں شائد
خواب خواب جذبوں کے
خواب خواب لمحوں میں
یونہی بے خیالانہ جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اُس سے ڈر گئی ہو تم
جرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں
جرم ہی کیئے تم نے
جرم! کیوں کیے جائیں؟
خط ہی کیوں لکھے جائیں۔
جان ایلیا