میں نے مانا کہ تم اِک پیکرِ رعنائی ہو
چمنِ دہر میں روحِ چمن آرائی ہو
طلعتِ مہر ہو ، فردوس کی برنائی ہو
بِنتِ مہتاب ہو ، گردوں سے اُتر آئی ہو
مجھ سے مِلنے میں اب اندیشہءِ رُسوائی ہے
میں نے خود اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے
خاک میں، آہ، ملائ ہے جوانی میں نے
شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
شہرِ خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
خواب گاہوں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
حُسن نے جب بھی عنائت کی نظر ڈالی ہے
میرے پیمانِ محبت نے سِپر ڈالی ہے
اُن دِنوں مُجھ پے قیامت کا جُنوں طاری تھا
سَر پے سرشاری و عِشرت کا جُنوں طاری تھا
مہ پاروں سے محبت کا جُنوں طاری تھا
شہر یاروں سے رقابت کا جُنوں طاری تھا
بِسترِ مخمل و سنجاب تھی دُنیا میری
ایک رنگین و حسیں خواب تھی دُنیا میری
کیا سُنو گی میری مجروح جوانی کی پُکار
میری فریادِ جِگر دوز میرا نالاءِ زار
شِدتِ کرب میں ڈوبی ہوئی میری گُفتار
میں کہ خود اپنے مذاقِ طرب آگیں کا شِکار
وہ گُدازِ دلِ مرحوم کہاں سے لائوں؟
اب میں وہ جذبہءِ معصوم کہاں سے لائوں؟
اب میرے پاس تُم آئی ہو، تو کیا آئی ہو
مجاز لکھنوی