سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
میں اُسے محسوس کرسکتا تھا چُھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اُس کے جُدا ہونے سے تھیں
آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی ، شہر دُھندلایا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سِوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا
عدیم ہاشمی