میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو
دِل کے ہر زرے پہ ہے نقش محبت اُسکی
نور آنکھوں کا ہے آنکھوں سے جُدا کیسے ہو
جِس کو جانا ہی نہیں اُس کو خُدا کیوں مانیں
اور جِسے جان چُکے ہیں ، وہ خدا کیسے ہو
عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی
ہم اگر دِل نہ جلائیں تو ضیاء کیسے ہو
جِس سے دو روز بھی کُھل کر نہ مُلاقات ہوئی
مُدتوں بعد مِلے بھی تو گِلہ کیسے ہو
دور سے دیکھ کے میں نے اُسے پہچان لیا
اُس نے اِتنا بھی نہیں مُجھ سے کہا ، کیسے ہو
وہ بھی اِک دور تھا جَب میں نے تجھے چاہا تھا
دِل کا دروازہ ہے ، ہر وقت کُھلا کیسے ہو
جب کوئی دادِ وفا چاہنے والا نہ مِلا
کون اِنصاف کرے ، حشر بپا کیسے ہو
آئینے میں بھی نظر آتی ہے صورت تیری
کوئی مقصودِ نظر تیرے سِوا کیسے ہو
کِن نِگاہوں سے اُسے دیکھ رہا ہوں شہزاد
مجھ کو معلوم نہیں ، اُس کو پتا کیسے ہو
شھزاد احمد