دولت تو بٹی ڈھیروں ڈھیروں، لیکن یہ خزانہ کم نہ ہوا
کِس شام نہ بھیگیں یہ پلکیں، کِس صبح یہ دامن نم نہ ہوا
بجلی بھی تڑپ کر تھمتی ہے ،اِس دل کا تڑپنا کم نہ ہوا
آنے کو بہاریں آئیں بہت، پھولوں کا بھی کِھلنا کم نہ ہوا
اشکوں کا کوی دامن نہ بنا ،زخموں کا کوی مرہم نہ ہوا
عالم میں حسیں آے کیا کیا، لیکن کبھی یہ عالم نہ ہوا
جس روز سنور کر تم نکلے، اُس روز کہاں ماتم نہ ہوا
موسم نے تو بدلے رنگ بہت ،بازارِ جنوں برہم نہ ہوا
زنجیروں کی یورش بڑھتی رہی ،دیوانوں کا جمگھٹ کم نہ ہوا
رنگیں ہے ہمیشہ صحنِ چمن رنگین مزاجوں کے دَم سے
کرتے ہیں لہو سے گُلکاری، پھولوں کا اگر موسم نہ ہوا
اربابِ غزل سے اے عاجز اربابِ ستم بھی عاجز ہیں
شمشیر نے منتر خوب پڑھا، اشعار کا جادو کم نہ ہوا
کلیم عاجز