یہ تمہارے غم کے چراغ ہیں کبھی بُجھ گئے کبھی جل گئے
میں خیال و خواب کی محفلیں نہ بقدرِ شوق سجا سکا
تیری اِک نگاہ کے ساتھ ہی میرے سب ارادے بدل گئے
نہ تو دُور ہیں نہ قریب ہیں ، تیرے درد مند عجیب ہیں
تیری یاد ہی سے تڑپ اُٹھے ، تیری یاد ہی سے بہل گئے
یہ کمالِ ہجر و وصال ہے کہ طلسمِ وہم و خیال ہے
کبھی صدیاں لمحوں میں اُڑ گئیں ، کبھی لمحے صدیوں میں ڈھل گئے
تھا اُنھیں بھی میری طرح جُنوں ، تو پھر اُن میں مُجھ میں یہ فرق کیوں
میں گرِفتِ غم سے نہ بچ سکا ، وہ حدودِ غم سے نکل گئے
غمِ دِل کا شکوہ فضول ہے ، یہ اِس جہاں کا اصول ہے
کہ جہاں چراغِ طرب جلے وہیں رُخ ہوا کے بدل گئے
ہے ملال کامل غمزدہ کہ روش روش ہے ستم زدہ
جنہیں ہم نے اپنا لہو دیا وہ چمن بہار میں جل گئے
رشید کامل